۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
الشيخ جواد رياض

حوزه/ الازہر یونیورسٹی مصر کے عالم دین شیخ جواد ریاض نے کہا کہ ہر حال میں فلسطینی مظلوم قوم کے ساتھ کھڑا ہونا، ایک زمہ داری ہے لیکن رمضان المبارک کی معنوی فضاء ہمارے لئے ایک بہترین اخلاقی فرصت ہے کہ ہم اپنی پوری طاقت و توانائی سے فلسطینیوں کی مدد کریں تاکہ ان کی سرزمین کو آزاد کرا سکیں۔

حوزه نیوز ایجنسی نے رمضان المبارک کی مناسبت سے الازہر یونیورسٹی مصر کے معروف عالم دین شیخ جواد ریاض سے گفتگو کی ہے، جس کا تفصیلی متن قارئین کرام کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

حوزه: کیا ہم رمضان المبارک کو اتحاد، رواداری، اختلافات پر قابو پانے، ملت کی فلاح و بہبود اور اس کے اسلامی اتحاد کیلئے کوشش کرنے کا موقع قرار دے سکتے ہیں؟

میں ذاتی طور پر، رمضان المبارک کو اتحاد کا مہینہ سمجھتا ہوں اور تمام مسلمان اس مہینے کے آغاز سے اختتام تک مختلف محفلوں میں شرکت کرتے ہیں اور راتوں کو اپنے رب کی قربت حاصل کرنے کیلئے دعائیں کرتے ہیں۔ روزہ اور رمضان المبارک کا مہینہ امت مسلمہ میں اتحاد کا باعث بنتے ہیں، لہٰذا غیر مسلم اس اتحاد و وحدت کے دائرے سے خارج ہوتے ہیں۔

حوزہ: رمضان المبارک کے عظیم مہینے کو ملت اسلامیہ کے خلاف چیلنجوں اور سازشوں سے نمٹنے، اختلافات کو ترک کرنے اور باہمی گفتگو کیلئے کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟

رمضان المبارک ان برائیوں سے مقابلہ کرنے کیلئے ایک عظیم فرصت ہے کہ جن کا امت مسلمہ کو سامنا ہے۔ مسلمان جانتے ہیں کہ ان کے روزوں کی قبولیت اپنے مسلمان بھائی سے نفرت اور حسد ترک کرنے پر منحصر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر اس بندے کو، جو اللہ رب العزت کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا، بخش دیتا ہے سوائے اس شخص کے کہ جس کے اور اس کے مسلمان بھائی کے درمیان دشمنی ہو، لہٰذا دین اسلام مسلمان بھائیوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے والی چیزوں سے اجتناب کرنے اور اتحاد و وحدت کا باعث بننے والے امور پر تاکید کرتا ہے۔

حوزہ: ہم قدس اور فلسطین کی آزادی کیلئے فلسطینی عوامی مزاحمت کے ساتھ کیسے کھڑے ہو سکتے ہیں اور ان کی حمایت کا طریقۂ کار کیا ہو سکتا ہے؟

ہر حال میں مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہونا، ہماری ایک زمہ داری ہے، لیکن رمضان المبارک کے یہ روحانی ماحول اور یہ قرب الٰہی ایک عظیم اخلاقی موقع ہے۔ کیونکہ ہم فلسطینی مظلوم عوام کی پوری طاقت اور توانائی سے مدد کرتے ہیں تاکہ ان کی سرزمین کو آزاد کرا سکیں اور فلسطینوں کی واپسی کی عالمی مہم اور فلسطینی علماء کی بین الاقوامی انجمن نے جن چیزوں کا مطالبہ کیا ہے، ان میں فلسطین کی حمایت کیلئے ریلیاں نکالنا اور اس مقصد کے حصول کیلئے مسلمانوں بالخصوص علماء کے کردار کو فعال کرنا شامل ہے۔ ہم نے، فلسطین کے بارے میں حقیقت کو متعارف کرانے کیلئے بہت سے علمی اداروں اور مؤسسوں کے ساتھ تعاون کیا ہے اور ہر سال رمضان المبارک میں نمازِ جمعہ کے دوسرے خطبے کو فلسطین اور بیت المقدس کے ساتھ مختص کرتے ہیں۔

حوزہ: آپ امت مسلمہ اور مقدسات اسلامیہ کے خلاف دشمن کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور اتحاد و وحدت جو کہ خیانت ہے، کے بارے میں کیا کہیں گے؟

غاصب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا، ہماری شریعت سے متصادم ہے اور یہ بات کسی بھی درک و شعور رکھنے والے مسلمان سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، لیکن بعض لوگ غاصب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کو اپنے فنا ہونے والے مقصد کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں، یاد رکھیں کہ غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والوں کو دنیا اور آخرت میں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔

حوزہ: اسلامی جمہوریہ ایران- سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے مابین ہونے والے حالیہ معاہدے اور خطے پر ان معاہدوں کے اثرات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

یقیناً یہ معاہدہ مسلمانوں کی طاقت و قدرت اور ان کے دشمنوں کی کمزوری کی طرف ایک قدم ہے اور ان معاہدوں سے ہر اس مسلمان کو خوشی ہوئی ہے جو حق و طاقت کا خواہاں اور دشمن کو ڈرانا اور اسے الجھن اور پریشانی میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .